نئی دہلی: 26 /اپریل(ایس اونیوز /آئی این ایس انڈیا) آسارام کے بیٹے نارائن سائی پر بھی عصمت دری کا الزام ثابت ہو گیا ہے۔سورت سیشن کورٹ نے نارائن سائی کو عصمت دری کے معاملے میں مجرم قرار دیا۔سزا کا فیصلہ 30 اپریل کو ہوگا۔نابالغہ سے عصمت دری کے الزام میں باپ آسا رام پہلے سزا کاٹ رہے ہیں۔نارائن سائی پر الزام ہے کہ اس نے ایک خاتون پر الگ الگ اوقات میں عصمت دری کی تھی۔ آسارام بھی عصمت دری کے دو الگ الگ معاملات میں ملزم ہیں اور جیل میں ہیں۔ایک طرف جہاں آسارام عصمت دری معاملے میں جیل میں بند ہیں وہیں اس کے بیٹے نارائن سائی نے بھی کالے کرتوتوں میں اپنے والد کا بخوبی ساتھ دیاہے۔ یہی نہیں نارائن سائی پر اس کی بیوی جانکی پہلے ہی غیر قانونی تعلقات کا الزام لگا چکی ہیں۔نارائن سائی پر آشرم کی ایک لڑکی کی عصمت دری کا الزام ہے۔آسا رام کے بیٹے اور ان کی گندی حرکتوں میں برابر کے حصہ دار نارائن سائی کے خلاف آشرم کی ایک لڑکی نے 6 اکتوبر 2013 کو عصمت دری کا معاملہ درج کرایا تھا۔اتنا ہی نہیں نارائن سائی نے اس معاملے کو دبانے کے لئے تھانہ انچارج کو 13 کروڑ روپے کی رشوت بھی دی تھی۔رشوت خور پولیس افسر سے 5 کروڑ روپے نقد اور پراپرٹی کے کاغذات برآمد کرنے کے بعد اسے گرفتار کر لیا تھا۔نارائن سائی کی حرکتوں کا انکشاف ہونے پر اس کی بیوی جانکی کی طرف سے شوہر اور سسر کے خلاف تشدد کے سنگین الزامات عائد کیے تھے۔سائی کی بیوی جانکی نے پولیس تھانے میں درج اپنی شکایت میں کہا تھا کہ نارائن ہرپلانی (نارائن سائی کا اصلی نام) سے اس کی شادی 22 مئی 1997 کو ہوئی تھی۔لیکن شادی کے اس بندھن میں بندھنے کے بعد بھی اس کے شوہر نے اس کی نگاہوں کے سامنے کئی عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کئے۔اس سے اس کو ذہنی تشدد جھیلنا پڑا۔جانکی نے یہ الزام بھی لگایا تھاکہ میرے شوہر نے ہمیشہ مذہب کے نام پر ڈھونگ کیا ہے۔میرے شوہر کا سب سے بڑا جرم یہ کیا ہے کہ اس نے اپنے آشرم کی ایک سادھکا سے ناجائز تعلقات بنائے۔جب یہ سادھکا حاملہ ہو گئی تو اس نے مجھ سے کہا کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔جانکی نے الزام لگایا کہ جب اس نے نارائن سے کہا کہ وہ اسے طلاق دے کر دوسری شادی کر سکتا ہے تو اس کے شوہر نے اسے بتائے بغیر ہی اس سادھکا سے راجستھان میں دوسری شادی کر لی اور اس عورت سے اس ایک ناجائز اولاد بھی ہے۔جانکی نے یہ بھی کہا تھاکہ جب میں دوسری عورتوں سے اپنے شوہر کے ناجائز تعلقات پر اعتراض جتاتی تھی، تو وہ مجھے دھمکاتے ہوئے خاموش رہنے کو کہتا تھا۔